وزیرٹرانسپورٹ خیبرپختونخواشاہ محمدخان وزیرکےساتھ انٹرویو

سینیٹ انتخابات،فاٹا انظمام کے ثمرات پی ڈی ایم اور قبائلی اضلاع میںلینڈریفارمز

سوال:فاٹا انظمام تو ہوگیا۔ فاٹا انظمام کے ثمرات عوام تک منتقلی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ایک عام بند ہ  نئے نظام سے کتنا خوش ہے۔ نئے نظام سے توقعات ہے یا پرانے نظام کو ترس رہے ہیں؟

جواب: فاٹا انظمام کا عمل ایک بہترین عمل تھا۔اس عمل میں صوبائی حکومت ،مرکزی حکومت اور خصوصی طور پر پاک آرمی  کے کردار کی تعریف کرتاہوں۔کیونکہ سو سال سے رائج  ایف سی آر کا قانون ایک ظالم اور غیر انسانی قانون تھا۔فرد واحد کی جرم میں ایف سی آر کی شکل میں عام لوگوں پر  دو قسم کی زمہ داریاں عائد ہوتے تھے۔ایک قبیلے کی مجموعی زمہ داری اور دوسری علاقائی زمہ داری۔قبیلے کی مجموعی زمہ داری کے تحت اگر کسی قبیلے میں کوئی بھی بندہ غیر قانونی کام کرتا تو اس فرد واحد کی جرم کی سزا میں قبیلے کے باقی عام اور شریف لوگوں کو بھی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔دوسری بات علاقائی زمہ داری کی تھی۔علاقائی زمہ داری کے تحت اگر کوئی بندہ  کسی علاقے میں کوئی جرم کرتا تو اس جرم کی پاداش میں علاقے کے سارے لوگوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ایف سی آر کے تحت لوگوں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔جو کہ ایک غیر انسانی اور ظالم عمل تھا۔جہاں تک عام عوام تک فاتا انظمام کی منتقلی کا سوال ہے۔بحیثیت  ایک قبائلی میں عوام کو میں یقین دلاتاہوں کہ انشاءاللہ جب قبائلی عوام  فاٹا انظمام کے ثمرات سمجھ جائیں گے تو وہ خود بخود  فاٹا  انظمام کے ثمرات محسوس کریں گے۔عمران خان کے ویژن اور محمود خان کی سربراہی میں ہم ہر ہفتے قبائلی اضلاع کا دورہ کرتے ہیں۔وہاں سے ترقیاتی کاموں اور باقی ضروریات کے متعلق رپورٹ تیار کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔ سو ارب پیکج  کے تحت مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت قبائلی اضلاع  میں بڑے بڑے پرجیکٹ شروع کرہی ہیں۔جنوبی اضلاع کو مردان اور پشاور کے برابر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔قبائلی اضلاع میں اے ڈی آر یعنی مصالحتی جرگے کا نظام لارہے ہیں جو کہ عدالتوں کے مقابلے بہتر اور آسان نظام ہے۔


وزیر ٹرانسپورٹ خیبر پختونخوا  شاہ محمدخان وزیر قبائلی عمائدین  کے مسائل سن رہے ہے

سوال:آپ نے  قبائل میں ایک بار پھر  اے ڈی آر یعنی مصالحتی جرگوں کے ذریعے فیصلے کرنے کا نظام  لاگو کرنے کی بات کی ۔کیا یہ وہی اجرت لینے اور طاقتور لوگوں کے حق میں فیصلے کرنے کا وہی پرانا نطام دوبارہ لاگو نہیں کیا جارہا ؟اسی طرح کے نظام کو ہم ایک بہتر نظام کیسے کہہ سکتے ہیں؟

جواب:اے ڈی آر یعنی مصالحتی جرگہ سسٹم ملک کے باقی حصوں میں بھی رائج ہے۔لوگ پہلے جرگوں کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر جرگے کے ذریعے مسلہ حل نہیں ہوتا تو لوگ عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔لیکن جرگہ سستم ایک بہترین نظام ہے۔جرگہ نظام پورے پاکستان میں ایک جیسا ہے۔اگر قبائل کے مشران جرگہ کی مد میں اجرت یعنی فیس لیتے ہیں۔یہ فیس یعنی اجرت باقی ملک میں ہونے والے جرگوں میں بھی چلتاہے۔لیکن جرگے کا یہ عمل دونوں فریقین کی باہمی رضامندی کے ذریعے ہوتا ہے۔اگر کوئی بھی فریق جرگے کے مقابلے عدالت جانے کو ترجیح فیتے ہیں تو جرگہ والے ان کو عدالت جانے سے منع نہیں کرتے۔

سوال:قبائلی اضلاع میں پٹوار سسٹم کی عدم موجودکی صورت میں زمینی حدود متعین نہیں ہے۔جس کی وجہ سے زمینی تنازعات جنم لے رہے ہیں ۔پٹوار سسٹم کب لائیں گے؟

جواب:صوبائی حکومت نے حدود بندی کا ایک پروگرام شروع کیا ہے۔جس میں یونین کونسل تحصیل اور ویلیجز کی حدود بندی کی جائے گی۔ڈسٹرکٹ آفیسرز بھی قبائلی اضلاع پہنچ  چکے ہیں۔جو کہ ضلع بندی کریں گے۔میڈیا کا کردار بھی یہی ہونا چاہئے۔کہ علاقے کے مسائل کو اجاگر کریں۔جو کہ بہت اچھی بات ہے۔حدود بندی کیلیے صوبائی حکومت نے ایک بہت بڑا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ہم نے سی  ایس ایس اور پی ایم ایس کے آفیسرز کی تعیناتی کیلیے  اشتہار بھی دیا ہے۔انظمام کے بعد قبائلی  اضلاع میں سب سے مشکل ترین عمل حدود بندی کا عمل ہے۔حدود بندی اور پٹورا نظام کی عدم موجود گی کی صورت میں نئے زمینی تنازعات جنم لے رہے ہیں۔لیکن انشاءاللہ بہت جلد یہ عمل شروع کریں گے۔

سوال:سننے میں آرہاہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان اپنے ابائی علاقہ سوات کے مقابلے میں جنوبی اضلاع کی ترقی کیلیے بہت کم فنڈ مختص کرتے ہے۔اس بات میں کس حد تک  حقیقت ہے؟

جواب:یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کی بھی حکومت آجائیں تو ان سے اپنے علاقے کے لوگوں کے توقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔کیونکہ حلقے کے لوگوں نے ان کو ووٹ دیے ہوتے ہیں۔میں ضلع بنوں سے منتخب ہوچکاہوں۔ظاہری بات ہے دوسرے ضلعوں کی نسبت اپنے حلقے پر زیادہ نظر ہوگی۔جہاں تک محمود خان کی ناانصافی کی بات ہے تو میں اگر وزیراعلیٰ محمود خان کا شکریہ ادا نہیں کروں گا تو یہ احسان فراموشی ہوگی۔کیونکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی ویژن کے مطابق پشاور ٹو ڈیرہ اسماعیل خان دوسو چھیتر ارب روپے کا موٹر وے پراجیکٹ دے دیا۔ جو کہ دریا خان پل کے ذریعے خیبر پضتونخوا کےجنوبی اضلاع کو پنجاب کے ساتھ کنیکٹ کریں گے۔انڈس ہائی وے پر کام شروع ہے۔میرے حلقہ بنوں میں لنک روڈز بن رہے ہیں۔سابقہ حکومتوں میں کوئی بھی جنوبی اضلاع کو فنڈ نہیں دے رہے تھے۔وزیر اعلیٰ محمود خان کی قیادت میں میرے حلقے میں کیڈٹ کالج بن رہاہے۔جنوبی اضلاع میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔لیکن ٹائم ضرور لے گا۔ہمیں چاہئے کہ ہم دینا کے ساتھ چلنا سیکھے۔مزید یہ فتوے لگانے ہمیں باز آنا چاہیے ۔تحریک انصاف کی حکومت پر اعتماد کرنا چاہئے۔میں بذات خود وزیراعلیٰ محمود خان کی قیادت سے مطمئن ہوں۔

سوال:سابقہ فاٹا کو سو ارب رقم دینے  ،این ایف سی ایوارڈ کا کیا بنا؟

جواب:این ایف سی  ایوارڈ کی مد میں  واپڈا رائلٹی  کے حقوق کے متعلق صوبائی حکومت کا ایک واضح پیغام ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مرکزی حکومت میں بھی زیادہ تر وفاقی وزراء کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہیں۔ہمارے وزراء کی کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے صوبے کیلیے زیادہ سے زیادہ رائلٹی حاصل کریں۔ماضی کی حکومتوں نے صوبوں کیلیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔موجودہ حکومت نے علاقے میں ترقی کا جال بچھایا ہواہے۔اگر ہمیں حقوق نہیں دیے جارہے تو ہم حقوق چھین بھی سکتے ہیں۔کیونکہ حقوق مانگے نہیں جاتے بلکہ چھینے جاتے ہیں۔صوبے میں زبردت ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ٹیم ورک جاری ہے۔اپوزیشن الزامات تو لگائیں گے۔

سوال:مولانا فضل الرحمان نے  پہلے جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا  دینے کا علان کیا بعد میں اسلام آباد کا رح کیا۔اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

جواب:جب کسی پر پریشر آتا ہے تو بدحواسی کا شکار ہوجاتا ہے۔طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کرتے ہیں۔ہمارے  ادارے بہت معزز ہے۔جب بھی ملک پر کوئی مصیبت آتاہے خواہ وہ سیلاب ہو  یا زلزلہ تو ہم ان اداروں سے مدد طلب کرتے ہیں۔لیکن جب سیاسی  الزامات کی بات آتی ہے تو ہم اپنے اداروں کی سپورٹ نہیں کرتے۔آج باجود یہ کہ نہ ہمارے مغربی بارڈر محفوظ ہے اور نہ مشرقی بارڈر۔لیکن پھر بھی اسی آرمی اور اداروں کی وجہ سے میں اپنے  گھر میں محفوظ ہوں۔وہ برف میںوقت گزار رہے  ہیں ۔آرمی والوں نے اپنے بچے گھر میں چھوڑے ہیں۔سیاسی ناکامی کو چھپانے کیلیے ہم آرمی پر الزامات لگارہے ہیں۔عمران خان کو پانث سال کیلیے عوام نے منتخب کیا ہے۔جب اپوزیشن کو حکومت مل جاتی ہے تو آرمی ٹھیک ہوتاہے۔جب کسی دوسری پارٹی کو حکومت مل جاتی ہے تو آرمی غلط۔آہوزیشن ایک دوسرے کی چوری کو   تحفظ دے رہی ہے۔

سوال:کیا پاکستان تحریک انصاف  پی ڈی ایم کو سنجیدہ لے رہی ہے؟

جواب:نہ پہلے لیا ہے نہ اب لے رہے ہیں۔یہ مفادات کا ٹولہ ہے۔اس سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف بولتے تھے۔اب کرپشن چھپانے کیلیے ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں۔

سوال: سینیٹ انتخابات آرہے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے۔بطور ایم پی اے کیا آپ بھی بھک جائیں گے؟

جواب:منسٹر صاحب ہنستے ہوئے کہا۔آپ نے زبردست سوال کیا ۔دیکھو میں خود سینٹ انتخابات میں ووٹر ہو ۔میرا ووٹ میری پارٹی کی امانت ہے۔میں نے ماضی میں بھی سینیٹ کیلیے دو ووٹ استعمال کیے ہیں ۔ماضی میں جب بھی کوئی ایم  پی اے اپنا ووٹ بیچتے تےتھےاور گنتی کے دوران ووٹ کم پڑ جاتے تھے۔ تو سارے ایم پی ایز مشکوک ہوجاتے تھے۔اور ہر ایم پی اے پر پریشر آجاتا تھا۔کیونکہ ہر بندے کے مخالفین ہوتے تھے۔ہر ایم پی اے پر بھیک جانے کے الزامات لگائے جاتے تھے۔لیکن بعد میں جب تحقیق کا عمل مکمل ہوجاتا تھا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتھا۔اوپن بیلٹ  کے ذریعے ووٹنگ بہت اچھا عمل ہے۔میں ساری  پارٹیوں سے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ وہ اس بل کو سپورٹ کریں۔کیونکہ اس سے ایم پی ایز کی وقار میں بہتری آئے گی۔ایم پی ایز کی خریدو فروخت لا عمل رک  جائے گا۔کیونکہ بعض ایم پی ایز کی ضمیر نہیں ہوتی۔بت شک بعض ایم پی ایز کے مفادات کو خطرہ ہوگا۔لیکن ہاتھ جوڑتاہوں کہ اس بل کو مشترکہ طور پر پاس کریں۔

سوال:بقول ایم این اے مفتی شکور حکومت کا ارادہ ہے کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے ایک بل لارہا ہے جس میں دوہری شہریت رکھنے والوں کو بھی سینیٹر بننے کیلیے راہ ہوار ہوجائے گی۔مطلب دولت رکھنے والے لوگ سینٹر منتخب ہوجائیں گے۔حکومت کرپشن کیلیے راہ ہموار کررہی ہے۔اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب:دوہری شہریت کے حوالے سے ابھی تک کوئی بل نہیں آیا ہے۔میرے علم میں نہیں ہے۔جب بل آئے گا تو پارٹی کا ایک واضح موقف سامنے آجائے گا جہاں تک مفتی شکور کے خدشات کی بات ہے۔خدشات اور خواہشات پر کوئی پابندی نہیں۔لوگ  خدشات اور خواہشات کا اظہار کرسکتے ہیں ۔لیکن سینیٹ انتخابات میں خریدو فروخت کے حوالے سے ہمارے پارٹی کا واضح موقف ہے۔کہ ایم پی ایز کی خرید فروخت کا سلسلہ بند ہو نی چاہیے۔تاکہ ایم پی ایز کی عزت اور وقار برقرار ہے۔ہم اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔اس میں دو رائے نہیں ہے


وزیر ٹرانسپورٹ خیبر پختونخوا  شاہ محمدخان وزیر میڈیا سے بات چیت کررہا ہے
 

سوال: لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ وزیر ٹرانسپورٹ کے اپنے حلقے میں بہت سےسرکاری سکولوں سے بیٹھک بنائے گئے ہیں۔اور بہت سے سکولوں میں سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں موجود ہے۔اس بات میں کتنی صداقت ہے؟

جواب:سابقہ فاٹا میں زیادہ تر سکولوں سے حجرے اور بیٹھک بنائے گئے تھے۔یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت سے انکار نہیں کرنی چاہیے۔اب جب فاٹا صوبائی حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی ھکومت کے زیرانتطام اگیا ہے۔حالیہ دنون میں شمالی وزیرستان کے دورے پر گیا تھا۔وہاں پر لوگوں کی طرف سے دو قسم کا موقف آگیا ۔ایک موقف اساتذہ کا تھا جو کہ کہہ رہے تھے کہ مانیٹرنگ ٹیم ہیمں بے جا تنگ کررہی ہے۔دوسرا موقف مقامی ملکانان کا تھا جو کہ کہہ رہے تھے کہ سکولوں پر ہمارے لوگ بطور مالی وغیرہ برتی کیے جائے۔میں نے ان کو بتایا کہ مانیٹرنگ ہر صورت میں ہوگی ۔سکولوں کو ہر صورت میں فعال بنائیں گے۔جہاں تک مقامی لوگوں کو کلاس فور اور مالی کی نوجری دینے کی بات ہے۔اس پر حکومت کا بھی ہیہ کوشش ہے کہ زمین عطیہ کرنے والوں کے لوگ بھرتی کیے جائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button