بدامنی کے خلاف جاری وزیرستان اولسی پاسون کمیٹی اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے۔دھرنا کو ختم کردیا گیا

جے این پی نیوز ایجنسی

وزیرستان امن اولسی پاسون کے مرکزی قائدین کا ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب، 7 روز سے جاری دھرنا

ختم، اور تمام بند  بند راستے کھول دیئے گئے

مطالبات پر جلد کارروائی شروع کرینگے، ڈی سی ناصر خان

تفصیلات کے مطابق مسلسل سات روز سے جاری دھرنے کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کی کامیاب مذاکرات ہوگئے، مذاکرات کی کامیابی پر دھرنے کے شرکاء نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔

مذاکرات کامیابی کے بعد فوراً ڈی سی جنوبی وزیرستان لوئر ناصر خان، ڈی پی او شبیر حسین اور اے سی وانا یاسر سلمان کنڈی دھرنے کے پینڈال پہنچ گئے، اس موقع پر تحصیل وانا کے چئیرمین مولانا صالح وزیر بھی انکے ہمراہ تھے۔

ڈی سی ناصر خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دھرنے میں شریک لوگوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ لوگوں کے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہے ہم ان تمام مطالبات پر بہت جلد عمل شروع کرینگے۔

کچھ مطالبات کو کامیاب بنانے کے لئے وقت درکار ھے اور زیادہ تر مطالبات پر بہت عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

جس پر دھرنا میں شامل لوگوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کر اعلان کر دیا گیا، اور تمام بند راستے کھول دیئے گئے

جنوبی وزیرستان لوئر میں بدامنی کے خلاف جاری وزیرستان اولسی پاسون چھ جنوری کو شروع کیا گیا تھا۔جو کہ سات دن تک جاری رہا۔دھرنا منتظمین نےسول اور عسکری حکام کے سامنے مندر جہ ذیل مطالبات پیش کیے تھے۔

امن سول حکومت کی ذمہ داری ہے، پولیس کو اگر مطلوب اشخاص یا کسی جگہ سرچ آپریشن یا کاروائی کرنا لازمی ہو تو قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔

اگر پولیس کو ایف سی یا فوج کی ضرورت پڑے تو پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 126 کے تحت مدد لے سکتی ہے۔

سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ہے، 1973 کے آئین کے تمام شقیں سابقہ فاٹا کے علاقوں پر لاگو ہیں،

لہذا آئین و قانون کے علاوہ امن کمیٹی ، قومی لشکر یا 2007 معاہدہ ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

جنوبی وزیرستان لوئر میں امن حکومتی رٹ کی بحالی سے مشروط ہے، حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے لوئر وزیرستان کو الگ ڈی پی او، ججز بشمول تمام لائن ڈیپارٹمنٹ وانا منتقل کی جائے،

جمشید وزیر کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔

سپین ، اعظم ورسک، شکئی، انگوراڈہ، زرملن، راغزائی تھانوں پر قائم چھوٹے بڑے بازاروں میں پولیس چوکیاں قائم کی جائے۔

پولیس کو قانونی اختیارات اور مراعات دی کائے، خاصہ دار فورس کی بند نوکریاں بحال کرنا اور موجودہ پولیس نفری کی حاضری کو یقینی بنایاجائے،

پولیس تھانوں ، پولیس چوکیوں اور دوران گشت پولیس کی تحفظ کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر ایف سی تعینات کی جائے۔

کالے شیشے والی گاڑیوں سرکاری /غیرسرکاری کے خلاف بلاامتیاز پابندی اور سخت کاروائی کی جائے، خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانونی کاروائی کیلئے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

ہر قسم کے مسلح تنظیموں اور شرپسند عناصر پر پابندی عائد کی جائے۔

پاک افغان بارڈر انگوراڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اور پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کو انگوراڈہ گیٹ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے

سول انتطامیہ اور اولسی پاسون کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کیلیے متعدد ملاقاتیں ہوتی رہی۔لیکن فریقین کسی خاص تتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہورہے تھے۔

لیکن آج بالاخر اولسی پاسون اور سول انتظامیہ کے درمیان مذاکرت کامیاب ہوگئے

فصیلات کے مطابق مسلسل سات روز سے جاری دھرنے کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کی کامیاب مذاکرات ہوگئے، مذاکرات کی کامیابی پر دھرنے کے شرکاء نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔

مذاکرات کامیابی کے بعد فوراً ڈی سی جنوبی وزیرستان لوئر ناصر خان، ڈی پی او شبیر حسین اور اے سی وانا یاسر سلمان کنڈی دھرنے کے پینڈال پہنچ گئے، اس موقع پر تحصیل وانا کے چئیرمین مولانا صالح وزیر بھی انکے ہمراہ تھے۔

ڈی سی ناصر خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دھرنے میں شریک لوگوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ لوگوں کے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہے ہم ان تمام مطالبات پر بہت جلد عمل شروع کرینگے۔

کچھ مطالبات کو کامیاب بنانے کے لئے وقت درکار ھے اور زیادہ تر مطالبات پر بہت عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

جس پر دھرنا میں شامل لوگوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کر اعلان کر دیا گیا، اور تمام بند راستے کھول دیئے گئے

جنوبی وزیرستان لوئر میں بدامنی کے خلاف جاری وزیرستان اولسی پاسون چھ جنوری کو شروع کیا گیا تھا۔جو کہ سات دن تک جاری رہا۔دھرنا منتظمین نےسول اور عسکری حکام کے سامنے مندر جہ ذیل مطالبات پیش کیے تھے۔

امن سول حکومت کی ذمہ داری ہے، پولیس کو اگر مطلوب اشخاص یا کسی جگہ سرچ آپریشن یا کاروائی کرنا لازمی ہو تو قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔

اگر پولیس کو ایف سی یا فوج کی ضرورت پڑے تو پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 126 کے تحت مدد لے سکتی ہے۔

سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ہے، 1973 کے آئین کے تمام شقیں سابقہ فاٹا کے علاقوں پر لاگو ہیں،

لہذا آئین و قانون کے علاوہ امن کمیٹی ، قومی لشکر یا 2007 معاہدہ ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

جنوبی وزیرستان لوئر میں امن حکومتی رٹ کی بحالی سے مشروط ہے، حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے لوئر وزیرستان کو الگ ڈی پی او، ججز بشمول تمام لائن ڈیپارٹمنٹ وانا منتقل کی جائے،

جمشید وزیر کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔

سپین ، اعظم ورسک، شکئی، انگوراڈہ، زرملن، راغزائی تھانوں پر قائم چھوٹے بڑے بازاروں میں پولیس چوکیاں قائم کی جائے۔

پولیس کو قانونی اختیارات اور مراعات دی کائے، خاصہ دار فورس کی بند نوکریاں بحال کرنا اور موجودہ پولیس نفری کی حاضری کو یقینی بنایاجائے،

پولیس تھانوں ، پولیس چوکیوں اور دوران گشت پولیس کی تحفظ کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر ایف سی تعینات کی جائے۔

کالے شیشے والی گاڑیوں سرکاری /غیرسرکاری کے خلاف بلاامتیاز پابندی اور سخت کاروائی کی جائے، خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانونی کاروائی کیلئے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

ہر قسم کے مسلح تنظیموں اور شرپسند عناصر پر پابندی عائد کی جائے۔

پاک افغان بارڈر انگوراڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اور پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کو انگوراڈہ گیٹ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے

سول انتطامیہ اور اولسی پاسون کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کیلیے متعدد ملاقاتیں ہوتی رہی۔لیکن فریقین کسی خاص تتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہورہے تھے۔

لیکن آج بالاخر اولسی پاسون اور سول انتظامیہ کے درمیان مذاکرت کامیاب ہوگئے

 وزیرستان امن اولسی پاسون کے مرکزی قائدین کا ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب، 7 روز سے جاری دھرنا

ختم، اور تمام بند  بند راستے کھول دیئے گئے

مطالبات پر جلد کارروائی شروع کرینگے، ڈی سی ناصر خان

وانا وزیرستان امن اولسی پاسون کے مرکزی قائدین کا ضلعی انتظامیہ کے سات مذاکرات کامیاب ہوگئے، سات روز سے جاری دھرنا ختم کردیا گیا

تفصیلات کے مطابق مسلسل سات روز سے جاری دھرنے کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کی کامیاب مذاکرات ہوگئے، مذاکرات کی کامیابی پر دھرنے کے شرکاء نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔

مذاکرات کامیابی کے بعد فوراً ڈی سی جنوبی وزیرستان لوئر ناصر خان، ڈی پی او شبیر حسین اور اے سی وانا یاسر سلمان کنڈی دھرنے کے پینڈال پہنچ گئے، اس موقع پر تحصیل وانا کے چئیرمین مولانا صالح وزیر بھی انکے ہمراہ تھے۔

ڈی سی ناصر خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دھرنے میں شریک لوگوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ لوگوں کے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہے ہم ان تمام مطالبات پر بہت جلد عمل شروع کرینگے۔

کچھ مطالبات کو کامیاب بنانے کے لئے وقت درکار ھے اور زیادہ تر مطالبات پر بہت عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

جس پر دھرنا میں شامل لوگوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کر اعلان کر دیا گیا، اور تمام بند راستے کھول دیئے گئے

جنوبی وزیرستان لوئر میں بدامنی کے خلاف جاری وزیرستان اولسی پاسون چھ جنوری کو شروع کیا گیا تھا۔جو کہ سات دن تک جاری رہا۔دھرنا منتظمین نےسول اور عسکری حکام کے سامنے مندر جہ ذیل مطالبات پیش کیے تھے۔

امن سول حکومت کی ذمہ داری ہے، پولیس کو اگر مطلوب اشخاص یا کسی جگہ سرچ آپریشن یا کاروائی کرنا لازمی ہو تو قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔

اگر پولیس کو ایف سی یا فوج کی ضرورت پڑے تو پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 126 کے تحت مدد لے سکتی ہے۔

سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ہے، 1973 کے آئین کے تمام شقیں سابقہ فاٹا کے علاقوں پر لاگو ہیں،

لہذا آئین و قانون کے علاوہ امن کمیٹی ، قومی لشکر یا 2007 معاہدہ ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

جنوبی وزیرستان لوئر میں امن حکومتی رٹ کی بحالی سے مشروط ہے، حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے لوئر وزیرستان کو الگ ڈی پی او، ججز بشمول تمام لائن ڈیپارٹمنٹ وانا منتقل کی جائے،

جمشید وزیر کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔

سپین ، اعظم ورسک، شکئی، انگوراڈہ، زرملن، راغزائی تھانوں پر قائم چھوٹے بڑے بازاروں میں پولیس چوکیاں قائم کی جائے۔

پولیس کو قانونی اختیارات اور مراعات دی کائے، خاصہ دار فورس کی بند نوکریاں بحال کرنا اور موجودہ پولیس نفری کی حاضری کو یقینی بنایاجائے،

پولیس تھانوں ، پولیس چوکیوں اور دوران گشت پولیس کی تحفظ کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر ایف سی تعینات کی جائے۔

کالے شیشے والی گاڑیوں سرکاری /غیرسرکاری کے خلاف بلاامتیاز پابندی اور سخت کاروائی کی جائے، خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانونی کاروائی کیلئے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

ہر قسم کے مسلح تنظیموں اور شرپسند عناصر پر پابندی عائد کی جائے۔

پاک افغان بارڈر انگوراڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اور پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کو انگوراڈہ گیٹ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے

سول انتطامیہ اور اولسی پاسون کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کیلیے متعدد ملاقاتیں ہوتی رہی۔لیکن فریقین کسی خاص تتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہورہے تھے۔

لیکن آج بالاخر اولسی پاسون اور سول انتظامیہ کے درمیان مذاکرت کامیاب ہوگئے

فصیلات کے مطابق مسلسل سات روز سے جاری دھرنے کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کی کامیاب مذاکرات ہوگئے، مذاکرات کی کامیابی پر دھرنے کے شرکاء نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔

مذاکرات کامیابی کے بعد فوراً ڈی سی جنوبی وزیرستان لوئر ناصر خان، ڈی پی او شبیر حسین اور اے سی وانا یاسر سلمان کنڈی دھرنے کے پینڈال پہنچ گئے، اس موقع پر تحصیل وانا کے چئیرمین مولانا صالح وزیر بھی انکے ہمراہ تھے۔

ڈی سی ناصر خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دھرنے میں شریک لوگوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ لوگوں کے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہے ہم ان تمام مطالبات پر بہت جلد عمل شروع کرینگے۔

کچھ مطالبات کو کامیاب بنانے کے لئے وقت درکار ھے اور زیادہ تر مطالبات پر بہت عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

جس پر دھرنا میں شامل لوگوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کر اعلان کر دیا گیا، اور تمام بند راستے کھول دیئے گئے

جنوبی وزیرستان لوئر میں بدامنی کے خلاف جاری وزیرستان اولسی پاسون چھ جنوری کو شروع کیا گیا تھا۔جو کہ سات دن تک جاری رہا۔دھرنا منتظمین نےسول اور عسکری حکام کے سامنے مندر جہ ذیل مطالبات پیش کیے تھے۔

امن سول حکومت کی ذمہ داری ہے، پولیس کو اگر مطلوب اشخاص یا کسی جگہ سرچ آپریشن یا کاروائی کرنا لازمی ہو تو قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔

اگر پولیس کو ایف سی یا فوج کی ضرورت پڑے تو پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 126 کے تحت مدد لے سکتی ہے۔

سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ہے، 1973 کے آئین کے تمام شقیں سابقہ فاٹا کے علاقوں پر لاگو ہیں،

لہذا آئین و قانون کے علاوہ امن کمیٹی ، قومی لشکر یا 2007 معاہدہ ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

جنوبی وزیرستان لوئر میں امن حکومتی رٹ کی بحالی سے مشروط ہے، حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے لوئر وزیرستان کو الگ ڈی پی او، ججز بشمول تمام لائن ڈیپارٹمنٹ وانا منتقل کی جائے،

جمشید وزیر کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔

سپین ، اعظم ورسک، شکئی، انگوراڈہ، زرملن، راغزائی تھانوں پر قائم چھوٹے بڑے بازاروں میں پولیس چوکیاں قائم کی جائے۔

پولیس کو قانونی اختیارات اور مراعات دی کائے، خاصہ دار فورس کی بند نوکریاں بحال کرنا اور موجودہ پولیس نفری کی حاضری کو یقینی بنایاجائے،

پولیس تھانوں ، پولیس چوکیوں اور دوران گشت پولیس کی تحفظ کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر ایف سی تعینات کی جائے۔

کالے شیشے والی گاڑیوں سرکاری /غیرسرکاری کے خلاف بلاامتیاز پابندی اور سخت کاروائی کی جائے، خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانونی کاروائی کیلئے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

ہر قسم کے مسلح تنظیموں اور شرپسند عناصر پر پابندی عائد کی جائے۔

پاک افغان بارڈر انگوراڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اور پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کو انگوراڈہ گیٹ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے

سول انتطامیہ اور اولسی پاسون کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کیلیے متعدد ملاقاتیں ہوتی رہی۔لیکن فریقین کسی خاص تتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہورہے تھے۔

لیکن آج بالاخر اولسی پاسون اور سول انتظامیہ کے درمیان مذاکرت کامیاب ہوگئ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button