جرگہ نیوزکی نظرمیں وزیرستان کیسےوزیرستان تھا۔مقامی لوگ کیامحسوس کررہےتھے۔تجزیاتی رپورٹ

عید کے دنوں میں وزیرستان میں بیک وقت افغان حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی،فاٹا انضمام مخالف اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلیے راہ ہموار کرنے کے بیانیے چل رہے تھے

عمر وزیر،چیف ایڈیٹر جرگہ نیوز

عید کےدنوں سب سے پہلے سام مارکیٹ گئے۔دوکانداروں سے کاروبار اور وزیرستان کے حالات کے حوالے سے پوچھ گچھ کی۔مارکیٹ  میں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ باہر سے آئے ہوئے سیاح بھی موجود تھے۔کوئی مارکیٹ میں جلیبی کھارہاتھا کوئی چاول سے لطف اندوز ہورہاتھا۔دوکانداروں نےجرگہ نیوزکو بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال وزیرستان لوگ کم آرہے ہیں لیکن پھر بھی کل روباری سرگرمیوں کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا گیا۔لوگوں کے کم آنے کی وجہ پوچھ لی تو کہنے لگے کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کے رونما ہونے کے بعد لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اسی خوف کی وجہ سے لوگ وزیرستان میں گرمی گزار نے سے کتراتے ہیں۔

مکین مارکیٹ گئے جو کہ نیشنل اور انٹرنیشنل لیول کے سیاست اور بیانیے کا مرکز بن چکا تھا۔مقامی لوگ بھی اس بات پر حیران اور کنفیوز تھے کہ اچانک علاقہ مکین  کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے ۔ایک طرف  24 جولائی کو قبائل تحفظ موومنٹ کی طرف سےفاٹا انضمام مخالف قبائل لویہ جرگہ کے انعقاد کی تیاریاں ہو رہی تھی۔دوسری طرف اگلے روز 25  جولائی کو جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام  پیغام امن فضلاء کانفرنس کا جلسہ ہورہاتھا۔جمعیت کے جلسے کی اہمیت کا اندازہ  لوگ اس بات سے بھی بااسانی لگاسکتے تھے کہ اسی جلسے میں بذات خود قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے بھی شرکت کرنی تھی۔25 سال بعد مولانا فضل الرحمان نے سرزمین مکین پر قدم رکھناتھا۔ 27 جولائی کو پختون تحفظ مومنٹ کی طرف سے افغان حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کیلیے جلسے کا اعلان کیا گیا تھا۔تاکہ پی ٹی ایم بھی اپنی وجود کا احساس دلا سکے۔انہوں نے بھی مکین مارکیٹ میں جلسے کی کمپین  کیلیے کیمپ لگایا تھا۔

بعض مقامی لوگ تو اس حد تک کنفیوز ہوگئے تھے کہ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ ان چند دنوں میں متوقع متواتر  جلسے جلوسوں کو کس نظر سے دیکھتے ہو۔تو انہوں نے جرگہ نیوز کو بتایا کہ ہم خود بھی کنفیوز ہیں کہ اچانک اس بار مکین کو اتنی اہمیت  کیوں دی جارہی ہے  کہ بیک وقت مختلف  بیانیے یہاں پر چل رہے ہیں۔اس کا مثال ہم نے ماضی میں نہیں دیکھاہے۔اس بار ایک بار پھر علاقہ مکین کی سرزمین پرایسا کونسا نیا کام شروع ہورہا ہے جس کیلیے سرزمین مکین کا انتخاب کیا جارہا ہے۔لوگ مختلف پیشن گوئیاں کررہے تھے۔

ہم نے بھی حالات پراپنی نظریں رکھے ہوئے تھے۔انتظار کرہے تھے ۔24 جولائی کو فاٹا انضمام مخالف   قبائل لویہ جرگہ کی تقریب کا آغاز ہوگیا ۔ہم بھی کوریج کیلیے گئے ۔جرگے میں مختلف اضلاع سے مشران اور نوجوانان  آئے تھے۔اسی فاٹا انضمام مخالف جرگے میں سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل کے بیٹے  اور تحریک جوانان پاکستان کے سربراہ عبداللہ گل نے بھی شرکت کی ۔ 

مکین کے لوگ پہلے بھی کنفیوژن کا شکار تھے۔لیکن جوں ہی عبداللہ گل نے اپنی تقریر میں فاٹا انضمام کے عمل کو قبائلیوں کے ساتھ زیادتیاور طلم کہنا شروع کیا تو  پہلے سے کنفیوز لوگوں کے کنفیوذن میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔بظاہر اس کنفیوذن کے دو وجوہات تھے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ چونکہ  فاٹا انضمام  کی حمایت  میں بذات خود موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجواہ بمعہ سیکیورٹی اداروں اور سول گورنمنٹ بھی پیش پیش تھے۔بشمول آرمی چیف کے تمام سیکیورٹی فورسز نے فاٹا انضمام کے عمل کو تکمیل آئین پاکستان سے تعبیر کیا تھا۔فاٹا انضمام کے عمل کو پاکستان کی خدمت کرنے  کا عمل کہا گیا تھا۔تو اچانک ایک ایسے موقعے پر فوجی  خاندان  سے تعلق رکھنے والے بندہ اگر اس عمل کو قبائلیوں کے ساتھ زیادتی کا  فعل کہنا شروع کریں گے تو لازمی بات ہے کہ پہلے سے مختلف  سازشوںکے شکار قبائلیوں کے ذہنوں پر  حیرانگی  کے اثرات تو مرتب ہوں گے

فاٹا انضمام  کی مخالفت میں  عبداللہ گل کی تقریر سے قبائلیوں کے ذہنوں میں جو  ایک اور کنفیوژن  پیدا ہوگئی ۔وہ یہ تھی  کہ چونکہ قبائلیوں کو بتایا گیا تھا کہ فاٹا انضمام کی شکل میں آپ لوگوں نے پاکستان کی خدمت کرکے  اس خطے کو محفوظ کرلیا ۔اس عمل کا قبائلیوں کو ترقیاتی کاموں کی شکل میں بہترین صلہ ملے گا۔لوگ آج تک  فاٹا انضمام کے ثمرات کی منتقلی  کے انتظار میں تھے کہ اچانک فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے بندے نے موجودہ سیکیورٹی فورسز کے بیانیے  کو بھی مسترد کرتے ہوئے فاٹا انضمام کو قبائلیوں کے ساتھ ظلم کہا اور فاٹا انضمام کے عمل کو غلط کا م کہہ دیا۔جس کا قبائلیوں  کے ذہنوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ایک نئی بحث شروع ہوگی۔انضمام مخالف لوگوں کو ایک اور موقع دیا گیا۔قبائل ایک بار پھر سازشوں کا شکار ہوجائیں گے ۔قبائل سوچنا شروع کریں گے کہ جب ایک فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والا بندہ بھی فاٹا انضمام کو قبائلیوں کے ساتھ ظلم کہہ رہا ہے یہ تو حقیقت میں ایک بار پھر موجودہ سیکیورٹی فورسز اور سول حکومت نے ہمارے ساتھ زیادتی کی اور فاٹا انضمام کی شکل میں ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔

جمعیت کے جلسے  اور  ان کے کردار کے متعلق بھی لوگوں کے مختلف رائے تھی۔بعض لوگ جمعیت کے کردار سے مطمئن نظر آرہے تھے  لیکن ایسے لوگ بھی تھے جو کہ تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔بعض لوگ جمعیت کے  جلسے کو  کامیاب جلسہ اور بعض ناکام جلسہ کہہ رہے تھے۔جلسے میں شریک لوگوں کے مقامی اور باہر سے لانے کے حوالے سے بھی جب لوگوں سے رائی لی گئی تو انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ  باہر سے بھی ایک بڑی تعداد لائی گئی تھی۔تاکہ کراؤڈ میں اضافہ کیا جائے۔جرگہ نیوز کی تحقیق  سے پتہ چلا کہ 2017 سے ابھی تک فارغ التحصیل  بندوں کو بھی دستار بندی کے نام پر مکین  صرف اس عرض کیلیے بلائے گئے تھے تاکہ شرکاء کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔لیکن باہر سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بھی جلسے میں شرکت کی تھی ۔جمعیت کے جلسے کے حوالے سے جب مقامی لوگوں سے رائے لی گئی تو انہوں نے کہا کہ جمعیت کی کوشش ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات  کے بعد اب وہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلیے راہ ہموار کرے تاکہ نظریہ ضرورت  کے تحت جمعیت کے اثر و رسوخ  علاقے میں بڑھ سکے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکان کے حوالے سے جب جمعیت علماء اسلام  کے رہنما سابقہ سینیٹر صالح شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا  کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئے ہم نے آئی جی ایف سی ساوتھ اور کور کمانڈر کو پیغام پہنچایا ہے لیکن تا حال سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے جب پی ٹی ایم سے پوچھا گیا تو پی ٹی ایم کے  ایک زمہ دار بندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرجرگہ نیوز کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئے تاکہ علاقے میں امن قائم  ہو۔

پی ٹی ایم نے بھی 27 جولائی کو ہونے والے  اظہار یکجہتی  افغان حکومت  کے جلسے  کیلیے مکین مارکیٹ میں کیمپ لگایا تھا۔پی ٹی ایم  کا زیادہ تر توجہ افغانستان کے موجودہ حالات پر تھی۔مقامی نوجوانوں کو افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا باقاعدہ  دعوت  دیا جارہا تھا۔ایسا محسوس ہورہاتھا جیسا کہ وہ  افغانستان کے کسی ضلعے یا  علاقے میں جلسہ کررہا ہو۔ اور افغان حکومت کیلیے انتخابی کمپین چلا رہا ہو۔نوجوانوں کی طرف سے نجی مجالس میں بھی افغان حکومت کے ساتھ بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا جارہاتھا۔پی ٹی ایم بذات خود اتنی منظم نہیں تھی۔لیکن حالات  ، مختلف واقعات اور حکومتوں کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے  پی ٹی ایم کیلیے  میدان ہموار ہوگئی تھی۔جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہےتھے ۔عام عوام اور حکومتی عہدیداروں  کے درمیان دوری محسوس کی گئی۔روابط کا فقدان تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button