ڈی پی او شوکت علی کی موجود گی میں عوام سے بھتہ لیا جارہاہے۔گھروں کومسمار کرنے کےعمل کی مخالفت کرنے پر ملکانان نے صحافی عمر وزیرکے والد سے 190000 کاقومی جرمانہ(بھتہ) لے لیا ا

مقامی صحافی آتش محسود کو بھی غیر فعال سرکاری سکول پررپورٹ بنانے کی وجہ سے دھمکیاں موصول ہورہی ہے

جنوبی وزیرستان وانا :قبائلی اضلاع خصوصاً جنوبی وزیرستان میں 25 ویں آئینی ترمیم اور فاٹا انظمام کے باوجود ابھی بھی جنوبی وزیرستان وانا میں ملکانان کی طرف سے لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے غیرقانونی عمل، لوگوں سے قومی جرمانے (بھتہ) وصول کرنے ،اجتماعی سزائیں دینے،صحافیوں پر بولنےکی قدغن لگانے ،سوشل ایکٹیوسٹ اور سیاسی لوگوں کو پولیس کی موجود گی میں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔پولیس اور انتظامیہ طاقتور ملکانان کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔وہاں پر ریاست کے اندر ایک الگ ریاست قائم کررکھاہے۔پولیس کی رٹ کو چیلنج کیا گیا ہے۔

ڈی پی او شوکت علی کی موجودگی میں جنوبی وزیرستان کے علاقہ اعظم ورسک میں ملکانان ایک شخص کے گھر کو جلا نے کے بعد مسمار کررہےہیں

ماضی کی طرح کچھ دن پہلے جرگہ نیوز کے چیف ایڈیٹر اور اخبار حق اسلام آباد کے بیورو چیف عمر وزیر کے والدسے 190000بطور جرمانہ صرف اس وجہ سے لے لیا۔عمر وزیر کا جرم یہ تھا کیونکہ عمر وزیر نے گھروں کو مسمار کرنے کے عمل خلاف آواز اٹھائی تھی۔25 ویں آئینی ترمیم کے بعد گھروں کو مسمار کرنے کے عمل کو غیر قانونی عمل قرار دیا تھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ساوتھ وزیرستان کرکنڑہ کے زمینی تنازعہ میں ملکانان کے کردار پر جماعت اسلامی کے کارکن تاج محمد نے جب نقطہ چینی کی تو ملکانان نے تاج محمد کو 2500000 لاکھ جرمانہ ادا کرنے اور ان کے گھر کو مسمار کرنے کی سزا سنائی۔جس پر عمر وزیر نے گھروں کو مسمار کرنے کے عمل کی مخالفت کی اور سوشل میڈیا کے ایک پوسٹ کے ذریعے تاج محمد کا ساتھ دینے کی بات کی تھی۔ جس پر ملکانا نے عمر وزیر کو بھی رقم ادا کرنے اور اس کے گھر کو مسمار کرنے کی سزا سنائی

ملکانان کی طرف سے سزا سنانے کے فوری بعد عمر وزیر کو تحفظ دینے کیلیے سول انتظامیہ حرکت میں آگئی ۔اسسٹنٹ کمشنر وانا جناب بشیر خان نےاپنی زمہ داری کو پوری کرتے ہوئے واقعہ کو رپورٹ کیا۔  18 مارچ 2021 کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر  شوکت علی کو لیٹر لکھ دیا۔ساتھ ہی ساتھ  9 اپریل 2021 کو ڈپٹی کمشنر ساتھ وزیرستان جناب اقبال خٹک صاحب نے بھی اپنی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے تحفظ دینے کیلیے ڈی پی او  شوکت علی کو لیٹر لکھ دیا۔کیونکہ فاٹا انظمام کے بعد سول انتظامیہ سے ایکشن لینے کے اختیارت پولیس کے پاس چلی گئی ہے۔ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سول انتظامیہ یعنی اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی سی 3 ایم پی او کے تحت ڈپولیس کو خط لکھیں گے۔عملی کاروائی کی زمہ داری پولیس کی ہوگئی ہے۔سول انتظامیہ بذات خود نہ کسی کو گرفتار کرسکتی ہے۔نہ کسی کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔یہ زمہ داری اب پولیس کی ہوگئی ہے۔لوگوں کے جان ومال کی زمہ داری اب پولیس کی ہوگئی ہے۔لیکن ڈی پی او شوکت علی نے ماضی کی طرح وہی غیر زمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ رویہ اپنایا ہواتھا۔

اسسٹنٹ کمشنر وانا اور ڈپٹی کمشنر کا ڈی پی او کےنام خطوط

اسی عرصہ میں ملکان  کے 18 رکنی کی چلویشتی کے ارکان مسلسل عمر وزیر کے گھر جارہے تھے۔اور عمر وزیر کے گھر والوں سے جرمانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ان کے گھر والوں کو حراساں کرتے تھے۔ڈی پی او  شوکت علی  ” کچھ بھی  نہیں ہوگا  ”کے جملے سناتے تھے اسی عرصہ میں ایک بار پھراسسٹنٹ کمشنر وانا جناب بشیر خان نے اپنی زمہ داریوں کو پوری کرتے ہوئے چلویشتی ارکان کی طرف سے عمر وزیر کے گھروالوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے ڈی پی او شوکت علی کے نام  11 اپریل 2021 کو محر ر کے رپورٹ کے ہمراہ  لیٹر لکھ دیا۔لیکن پھر بھی ڈی پی او وہی غیر زمہ دارانہ،غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کررہے تھے۔

گھروں کو تحفظ دینے کے حوالے سے لکھا گیا لیٹر

عمر وزیر کے گھر والے چلویشتی کی طرف سے حراساں کرنے کے عمل سے تنگ آکر انہوں نے چلویشتی ارکان کے کہنے پر گھرکو مسمار کرنے کیلے خالی کرنا شروع کیا۔

عمر وزیر کا گھر تو مسمار نہیں کیا گیا ۔عمر وزیر کے مسلسل انکار کے باوجود باالا آخر عمر وزیر کے گھر والے ملکانان کے پریشر میں آکر خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے ملکانان کو 190000 لاکھ رقم اداکردیے۔جو کہ قومی جرمانے کی شکل میں بھتہ ہے۔

ملکانان کی طرف سے بھتہ لینے کے بعد ایک بارپھر اسسٹنٹ کمشنر نے عوام کے جان ومال کو تحفظ دینے کی  اپنی زمہ داریوں  کو پوری کرتے ہوئے۔عمر وزیر کے گھر والوں سے  غیر قانونی طور پر لیے گئے رقم کی ریکوری  کیلیے ڈی پی او ساوتھ وزیرستان شوکت علی کو12 اپریل 2021 کو لیٹر  لکھ دیا۔جس میں بھتہ لینے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے اور رقم کی ریکوری کے متعلق کہاگیا ہے۔

رقم کی ریکوری کا لیٹر

لیکن تاحال ڈی پی او شوکت علی کا وہی غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ رویہ برقرار ہے۔ساوتھ وزیرستان کے لوگ جان ومال کے عدم تحفظ کا شکار ہیں

اس سے پہلے بھی ملکانان نے ڈی پی او شوکت علی کی موجود گی میں علاقہ اعظم ورسک میں متعدد گھروں کو نظر آتش کرکے گرائے تھے۔عمر وزیر نے اس وقت بھی گھروں کو مسمار کرنے کے خلاف لکھتے رہے۔جس کی وجہ سے ملکانان صحافی عمر وزیر کے دشمن ہوگئے۔ڈی پی او شوکت علی ہمیشہ اپنی زمہ داریوں اور عوام کے جان ومال کو تحفظ دینے سے چشم پوشی کرتے رہے۔

گھروں کو مسمار کرنے کے عمل کے خلاف عمر وزیر کا لکھا گیا آرٹیکل

 اس کے علاوہ مقامی صحافی آتش محسود کو بھی گیر فعال سرکاری سکول پررپورٹ بنانے کی وجہ سے دھمکیاں موصول ہورہی ہے۔آتش محسود کا بھی جرم یہ ہے کہ وہ علاقے میں موجود غیر فعال سکولوں،صحت کے بنیادی مراکز کو دوبارہ آباد دیکھنا چاہتاہے۔لوگ گھروں پر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں۔جو کہ ایک مافیا کی شکلک اختیار کرچکا ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں دھمکاتےہیں۔ڈی پی او ساوتھ وزیرستان اسی طرح کے واقعات پر ہمیشہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔عوام کو درپیش خطرات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔جو کہ غیر پیشوراور غیر سنجیدہ آفیسر کی نشانی ہ

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈی پی او  شوکت علی  غیر پیشہ ورانہ اور غیر سنجیدہ آفیسر ہے۔اپنی زمہ داریوں کو پوری نہیں کرتے۔عوام اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتی ہے۔ڈی پی او شوکت علی امن امان کی بحالی سے زیادہ انگوراڈہ گیٹ،راغزئی،تنائی چیک پوسٹوںمیں زیادہ دلچسپی لیتاہے۔عام عوام کو تحفظ دینے میں ان کی  کوئی دلچسپی نہیں۔

ڈی پی او شوکت علی کے غیر سنجیدہ اور غیر پیشہ ورانہ رویے سے ساوتھ وزیرستان کے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ڈی پی اوصرف ٹائم گزار رہا ہے۔وہاں کے لوگوں نے ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کر رکھاہے۔کرکنڑہ زمینی تنازعہ میں بھی لاپتہ تھے۔صرف فوٹو سیشن کیلیے آتے تھے بعد میں غائب ہوجاتے تھے۔جس کی وجہ سے متعدد اموات واقع ہوگئے۔ڈی پی او کے علاوہ کر کنڑہ تنازعے کے دوران پولیس اہلکاران بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کررہےتھے۔مقامی ہونے کی وجہ سےوزیرقبائل سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکارسرکاری ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود اپنی قوم کے ساتھ کھڑے تھے۔حتیٰ کے قوم کے ساتھ مورچہ زن تھے۔ دوتانی قوم کے  پولیس نوجوانان دوتانی قوم کے ساتھ مورچوں میں بیٹھے تھے۔دوسری جانب جب  تیسرےفریق یعنی محسود قبیلے کے متعلق جب کوئی بات ہوتی ہے تو محسود قوم کے پولیس اہلکار سب سے پہلے محسود ہوتےہیں ۔بعد میں سرکاری نوکر ہوتےہیں۔ مقامی ہونے کی وجہ سے پولیس کا اسی طرح قبیلوں میں  تقسیم  ہونے کی وجہ سے ضلع جنوبی وزیرستان میں امن وامان کی صورتحال مزید بگڑتی جارہی ہے۔پولیس اہلکاران مقامی ہونے کی وجہ سے باثر افراد کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتے ہیں ۔صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جنوبی وزیرستان میں تعینات مقامی پولیس فورس کی جگہ دوسرے اضلاع کے پولیس فورس کی تعنیاتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پولیس کی بھرتیوں میں بھی  اعلیٰ سطح پر میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ جنوبی وزیرستان کے پولیس میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب وہاں پر پروفیشنل اور سنجیدہ ڈی پی او موجود ہو۔آئے روز گاؤں اور بازاروں میں ڈکیتیاں اور ایک دوسرے کو  قتل کرنے کے واقعات  ہورہے ہیں ۔اب کچھ دن پہلے اعظم ورسک بازار میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کررہے تھے۔ڈی پی او خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہے۔مختلف واقعات میں متعددملزموں  کے خلاف خلاف ایف آئی آر درج ہو چکے ہیں۔لیکن ڈی پی او شوکت علی نے ملزموں کے ساتھ مفاہمت  کی پالیسی کے تحت گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔فاٹاانظمام کے بعد لوگوں کے دلوں میں ایک امید پیدا ہوچکی تھی۔لیکن  ڈی پی او کے غیر پیشہ ورانہ اور  غیر سنجیدہ رویے نے لوگوں کے امیدوں پر پانی پھیر دیے۔عوام ڈی پی او  شوکت علی سے نالاں ہے ۔مزیدچھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے۔عوام نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور آئی جی پولیس خیبر پختونخوا سے مطالبہ کرتی ہے کہ ڈی پی او شوکت علی کا ساوتھ وزیرستان سے تبادلہ کیا جائے۔کیونکہ شوکت علی اپنی زمہ داریوں کو پوری کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ساوتھ وزیرستان میں قابل ایماندار اور ۔سنجیدہ ڈی پی او اور پولیس فورس کو تعینات کیا جائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button