تعلیم نسواں اور رائج مخلوط طرزِتعلیم
تحریر: ثناء اللہ وزیر
علامہ اقبالؒ کا شعر ہے :
؎جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
علم کی افادیت اور اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،چنانچہ سعادت دارین کے حصول کا بہترین ذریعہ حصول علم ہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ پر وحی کی ابتداء لفظ "اقراء” سے ہوئی ہے، اور قرآن مقدس میں مختلف مقامات پر حصولِ علم کی ترغیب دی گئی ہے ، اور کسی بھی عمل کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے کیونکہ علم کے بغیر عمل کیسے ممکن ہوگا؟مگر یادرہے کہ یہ حصولِ علم صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ اسلام نے یہی حق عورت کو بھی دی ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے”قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ”( سورۃ الزمر آیت نمبر:9)
ترجمہ: کہو کہ کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر نہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں مرد وزن کی کوئی تخصیص نہیں ہے ، بلکہ عموم استعمال ہوا ہے کہ فوقیت علم والے کو ہے چاہے مرد ہو یا عورت ہو، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تذکرہ موجود ہے۔
چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں” طلب العلم فریضہ علی کل مسلم”
علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
اس حدیث مبارکہ میں بھی مرد وزن کی کوئی تخصیص نہیں ہے ، بلکہ مسلمان کاذکر ہواہے چاہے مرد ہو یا عورت ،لہٰذا اسلام نے حصولِ علم کا حق مرد وزن دونوں کو دیا ہے کہ تعلیم و تعلّم میں دونوں برابر ہے ۔
نیز تعلیمِ نسواں اس لیے ضروری ہے کہ معاشرہ ،قوم ،تہذیب ، ثقافت اور دین سے روشناس کرانے میں عورتوں کی اساسی اور مرکزی کردار ہوتا ہے ، اس لیے کہا جاتا ہے کہ” ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینے کی مانند ہے اور ایک عورت کو تعلیم دینا پورے خاندان کو تعلیم دینے کی مانند ہے "قوم کے بچوں اور نوجوانوں کی صحیح تربیت اور نشوونما ماں سے منسلک ہوتی ہے ، اگر مائیں ہی علم و تعلیم سے محروم ہوں گی تو اپنے بچوں کی صحیح تربیت کس طرح کر سکیں گی ؟ جبکہ ماں کی گود اولین مدرسہ ہے ۔
لیکن اب المیہ یہ ہے کہ ہم تعلیمِ نسواں کی اہمیت پر بحث تو کرتے ہیں لیکن طریقہ کار پر بحث نہیں کرتے ،جبکہ حالیہ رائج مخلوط طرزتعلیم جس کی بنیاد مغرب نے رکھی ہے ،جس کے نقصانات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،اور مسلمان بھی اندھے مقلّدبن کرکالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہی طرزتعلیم رائج کیاہے، جس نے معاشرہ کی شیرازہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ،تعلیم کے مقاصد اور فوائد پیچھے رہ گئے ہیں،طلباء اور طالبات ذہنی ناپختگی کے شکار ہوتے چلے آرہے ہیں ،اور ایسے الجھنوں کے شکار ہوئے ہیں ، جو ان کے مستقبل کے لیے خطرے کے باعث بن سکتی ہے ،حتی کہ اس طرز تعلیم سے مرد وزن کے مابین بے راہروی بڑھ جاتی ہے، اور باہمی جنسی بے تکلفی قائم ہوجاتی ہے۔
چنانچہ مشہور فرانسیسی عالم عمرانیات ” پو ل بیورو اپنی کتاب”Towardsmoral Bankruptcy” میں لکھتا ہے کہ "فرانس کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں ، جو کسی فورم پر کام کرتی ہے اور شائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے ،ان کے لیے کسی اجنبی لڑکے سے مانوس ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے”
اسی طرح لندن کے ایک سماجی کارکن نے اپنی مطالعاتی رپوٹ میں وہاں کے مخلوط تعلیم گاہوں کی صنفی آوارگی اور جنسی انارکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طورپر مانع حمل اشیاء اپنے بیگ میں لیے پھیرتے ہیں کہ جانے کب ضرورت پڑجائے ؟”
خیر اس کی علت تو ہم ان کی تہذیب قرار دے دیں گے ، تاہم اس سے تو یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مرد وزن کی مخلوط طرز تعلیم سے معاشرہ کتنی خرابیاں جنم لیتی ہے ؟
تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرز تعلیم پر تنقید کرتا ہے تو اس کو دقیانوس قرار دیا جاتا ہے ، اور مختلف قسم کے القابات لگا کر زمانے کا جاہل قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام کا نقطہ ِنظر اس حوالے بالکل صاف اور ٹھوس ہے کہ ایک مرد یا عورت کے لیے کسی غیر محرم کو دیکھنا اور اس کے ساتھ مل ،بیٹھ کرگفتگو کرنےکی شرعاً اجازت نہیں ۔
العرض! اسلام کبھی بھی عورت کو تعلیم کے حصول سے منع نہیں کرتا ہے ، لیکن حالیہ رائج مخلوط طرز تعلیم کا بالکل اجازت نہیں دیتا ہے ،کیونکہ ایسے ماحول سے معاشرہ سنگین مسائل سے دوچار ہوجاتا ہے ،لہٰذا عورت کے لیے حصولِ تعلیم کا ایسا نظام اور فراہم کیا جائے جو ان کی عصمت و عفت میں معاون ہو ۔