مخمصے کا شکار ایک نیا ٹولہ اور ان کا بے سمت بیانیہ

تحریر،محمد انور شاکر وزیر     

سوشل میڈیا نیٹ ورکس خاص کر فس بک اور ٹویٹر پر ایک خاص مدت سے ایک عجیب ٹولہ سامنے آچکا ہے۔ایک سو  اُنتالیس افراد کا یہ فس بکی ٹولہ عجیب مخمصے کا شکار نظر آتا ہے ۔  بظاہر اس ٹولہ میں اچھے پڑے لکھے افراد بھی موجود ہیں،ان میں کوئی قوم پرستی کے مرض کا شکار ہے انتہا ئی لیول پر ) جبکہ بعض اپنے آپ کوسیاسی جماعتوں سے نتھی کرتے ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ آپ نے مملکت خُداداد پاکستان ( ریاست پاکستان) کے حق میں دو الفاظ کہے تواُدھر سے یہ بائی ڈیفالٹ آٹو موڈ   ہوتا ہوا آپ کی طرف   پلٹ کر جھپٹ کر آتا ہے  پھر آپ کے سامنے ماضی بعید اور قریب کے تاریخی واقعات رکھ دیتے ہیں۔یعنی آپ ٹرائی کریں فس بک پر مملکت خُدادا کیلئے دو خیر کے الفاظ لکھ دیں پھر کمنٹس ایریا دیکھ لیجئے کہ منٹوں میں کالا ہوجاتا ہے کہ نہیں۔

پاکستان کے خلاف لڑنے ہتھیار اُٹھانے والے مسلح تنظیموں اور افراد کا بیانیہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ وہ سرے سے اس ملکی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اس نظام کے خلاف تلوار بے نیام لئے پھرتے ہیں۔ موقع پاتے ہی کسی بھی کاروائی سے گریز نہیں کرتے ۔ پاکستانی فوج اور ان کی دشمنی و مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ان کا بیانیہ ان کے اپنے ایک خاص نظرئے پر مشتمل ہے جس کیلئے اُنہوں نے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کا رُخ کیا ہے یعنی مسلح جد جہد کر رہے ہیں۔

لیکن یہ دوسرا ٹولہ خود کو امن پسند بھی کہتا ہے۔ مکالمے کی بات بھی کرتا ہے لیکن ریاست پاکستان کی مخالفت میں بی ایل اے سے دو قدم آگے ہیں۔

اُس دن ہم نے آئی ایس پی آر کی ایک خبر جس میں کہا گیا تھا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی طرف سے شدید فائرینگ ہو رہی ہے اوریہاں سے جواب دیا جا رہا ہے ( اُڑی حملہ اور موجودہ ٹینشن سے کچھ روز پہلے ) تو ہم نے کا پی کر کے اپنی وال پر پوسٹ کی۔چونکہ ہم دو ٹکے کے خبرنگار ہوا کرتے ہیں اس لئے دو ایٹمی پڑوسی قوتوں کے سرحد پر شدید فائرینگ  کو   اپنے تئیے ایک بڑی خبر سمجھتے ہیں! اور اس کے اثرات مابعد کی تھ  وڑی سی بو محسوس کرتے ہیں یہ تقریبا ہر رپورٹر کا خاصہ ہوا کرتا ہے کہ وہ واقعے کی شدت  اور اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں (اگرچہ ہم اس میں بہت ہی پیچھے ہیں اپنی نالائقی اور ناتجربہ کاری کی بدولت) ۔

اس پاک بھارت فورسز کی جھڑپوں کی خبر  فس بک وال پر لگتے ہی ہمارے ایک غائبانہ اور نہایت ہی اچھے دوست نے جھٹ سے بڑے طنزیہ انداز میں کمنٹس کیا کہ ” اسی طرح بڑی اور بریکنگ نیوز یہاں لگانے پر ہم آپ کو نقد انعام دیں گے”گو کہ موصوف ایک بڑے پائے کی لکھاری ہے پر ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ جو ایک نیا بیانیہ مارکیٹ میں آیا تھا وہ کس تیزی سے لوگ قبول فرما رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح آپ 14 آگست یا 6 ستمبر پر دو الفاظ لکھ دیں فس بک پر ! آپ کو لگ پتہ جائیگا کہ سیر سے کتنا پکتا ہے!دلیل یہ دی جا تی ہے کہ چونکہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے ؟اس اسٹبلشمنٹ یا واضح الفاظ میں فوج نے عسکری کاروئیوں کر کے قبائیلی علاقاجات کو تباہ کیا وغیرہ وغیرہ ۔

ہم نے کئی دوستوں کو اپنے تئیے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وزیرستان کی فکر آپ سے زیادہ باخُدا ہمیں کھائی جا رہی ہے۔ آپ کا حکمران ٹولے سے اختلاف سر آنکھوں پر ، آپ کی تنقید کسی جرینل کی پالیسوں پر اچھی بات ہے ،لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم اس پورے گھر کو آگ لگا دیں؟

بعض  مہربان تو اٹک سے کم پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے ! جان جگر ایک ہوتی ہے ریاستی اور حکومتی پالیسوں پر تنقید برائے اصلاح  آپ کی تنقید تو بادی النظر میں کچھ اور ہی شارے دے رہی ہے! کچھ عرصہ پہلے

 ایک طوفان کھڑا ہو گیا کہ تم افغان ہو کہ نہیں میں تھا اور ہوں  وغیرہ وغیرہ !ہم عرض کرتے میرے بھائی کچھ اس انداز سے تنقید کریں کہ ہمیں سیکھنے کا موقع ملے ! اور حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کیلئے ہم سب دباؤ ڈالیں۔ لیکن آپ تو جیب میں پاکستانی شناختی کارڈ کی پلاسٹک کوٹنگ کر کے یہاں نوکری بھی اس ملک کی قوانین کے تحت کرتے ہو ، کھاتے پیتے بھی اس ملک کے ہو ،پاسپورٹ بھی تیرا پاکستانی !لیکن تیرا بیانیہ اور باتیں سر ا سر غیر ملکیوں والے ہیں۔ اگر اتنی ہی نفرت ہے تو اس شناختی کارڈ کو جلادو ، پاسپورٹ کو پھاڑ دو  اور مسلح جد جہد کرنے والوں کیساتھ شامل ہو جاؤ یا ، پھر عدنان سمیع کی طرح  اپنی شہریت تبدیل فرمائیں پھر جو دل میں آئیے کہہ دو ، کون آپ کو روک رہا ہے ۔

اس سارے عرصے میں جو محب وطن لوگ ہوتے ہیں ان کیلئے ایک اصطلاح نہایت ہی سوچ سجھ کر ایجاد کر دی گئی ”گل خان” اس کا اثر ہمارے بعض محب وطن دوستوں پر ایسا ہوا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اب کچھ لکھ نہیں سکتے نہ کچھ پوسٹ کر سکتے ہیں تاکہ مجھے کوئی ” گل خان ” نہ سمجھے!

بھائی جان حکومت یا اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں سے ہمیں بھی اختلاف ہے ۔ لیکن خُدا راہ یہ ملک ایک گھر ہے ایک خاندان ہے اس میں باہمی اختلافات ہونگے ،آپس کی چپقلشیں ہونگی لیکن ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ ہم خاندانی نظام اور گھر کا بساط لپیٹنے کی باجماعت قسم کھا کر کمر بستہ ہو جائیں۔یہ آپ کی تو ادھا تیتر آدھا بٹیر والی بات  ہے ۔ یہ مخمصے کا شکار بیانیہ جو آپ کے ذہن میں بھٹا دیا گیا ہے یہ ایڈہاک پالیسی ہے  اور ناکام ترین سوچ ہے   ۔ آئین و قانون کے دئرے میں رہتے ہوئے اگر ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑے تو اچھی بات ہے ۔ تنقید کریں تو سو بسم اللہ ۔ لیکن تممارے بیانئے سے یوں لگتا ہے بادی النظر میں کہ پاکستان ہمارا دشمن نمبر ون ہے ( خاکم بدہن ) اور تم نے اس کے دشمنی کی قسم باجماعت اُٹھائی ہے۔میرے بھائی اسی طرح ہم اپنے حقوق نہیں لے سکتے ۔ اپنے بیانئے کو تبدیل کرنا پڑیگا ۔ اس ملک کو ایک آزاد اور خومختار ملک کے طور پر دیکھنا پڑیگا۔ ریاست کی جڑیں کاٹنے کی کوشش نہیں کرنی  ہو گی۔

یار کیا کروں! تیرے لئے پاکستان دشمن، اس کے ایٹمی اثاثے تیرے آنکھوں کے کانٹے،مدارس و  مذہبی طبقہ تجھے ناقابل قبول! سعودی عرب آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا! ترکی کے آردوان سے آپ کو نفرت،  پاکستان کا اسٹرٹیجک پارٹنر اور دیرینہ دوست چین سے آپ کو دشمنی ! تبلیغی جماعت والے بیچارے آپ  کیلئے نا پسندیدہ،علمائے حق آپ کے نزدیک علمائے سوء، ،ہندوستان کے کشمیر میں مظالم پر آپ  خاموش، انڈیا کے خلاف جو بول پڑے وہ آپ کی نظر میں تنگ نظر !

آپ کا خیال ہے کہ میرے اندر کا انسان کوئی سمجھتا ہی نہیں بھول جاؤ اس بات کو یہ تیری بھول ہے ۔ اس لئے آپ کو ہم مخمصوں کا شکار ایک نیا اور عجیب ٹولہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button